نورتھ ایسٹرن یونیورسٹی: چیٹ جی پی ٹی کے استعمال پر طلبہ کی شکایت
🧠 ایلا اسٹیپلٹن کا دعویٰ
نورتھ ایسٹرن یونیورسٹی کی طالبہ ایلا اسٹیپلٹن نے اپنے پروفیسر پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے کورس کے مواد تیار کیے ہیں، حالانکہ یونیورسٹی کی پالیسی کے مطابق طلبہ کو ایسے ٹولز کے استعمال سے منع کیا گیا ہے۔ ایلا نے اس شکایت کے بعد یونیورسٹی سے تقریباً 8,000 ڈالر کی ٹیوشن فیس کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ یونیورسٹی نے اس شکایت پر غور کیا لیکن پروفیسر کے عمل کو یونیورسٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا۔ یہ واقعہ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں بحث کا آغاز کر رہا ہے۔
📚 کورس پالیسی اور مصنوعی ذہانت
یونیورسٹی کی پالیسی کے مطابق، طلبہ کو چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے استعمال سے منع کیا گیا ہے تاکہ تعلیمی کام کی صداقت اور معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔ تاہم، ایلا نے دعویٰ کیا ہے کہ پروفیسر نے ان ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے کورس کے مواد تیار کیے ہیں، جو کہ پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔ اس واقعے نے تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں سوالات اٹھا دیے ہیں۔
⚖️ شکایت کا ردعمل
یونیورسٹی نے ایلا کی شکایت پر غور کیا لیکن پروفیسر کے عمل کو یونیورسٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا۔ اس فیصلے نے طلبہ اور اساتذہ کے درمیان مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں اخلاقی اور تعلیمی سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں پالیسیوں کی وضاحت اور شفافیت کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
🧩 نتیجہ
یہ واقعہ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں پالیسیوں کی وضاحت اور شفافیت کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں اخلاقی اور تعلیمی سوالات پر مزید بحث کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی معیار اور صداقت کو برقرار رکھا جا سکے۔